Top 15 Sad Ghazal in urdu
1:Sad Ghazal
دکھ کا نشاں ابھار کے، تم کیوں چلے گئے
تنہائیاں سنوار کے، تم کیوں چلے گئے
آنسو، عذاب، درد، اداسی، غموں کا قہر
آنکھوں میں سب اتار کے، تم کیوں چلے گئے
مجھ کو تمام رات کی چیخیں سنائی دیں
اک شب مجھے پکار کے، تم کیوں چلے گئے؟
اب کیا کروں اداسی بھری شاعری کا میں
اک درد کو نکھار کے، تم کیوں چلے گئے؟
بس چاؤ، پیار، مان تھا، ایسی تھیں حسرتیں
سب حسرتوں کو مار کے تم کیوں چلے گئے؟
میرے تو وہم میں بھی نہیں تھی یہ زندگی
میرے بنا گزار کے تم کیوں چلے گئے
پھر سے کسی کی گھات نے تم کو لبھا لیا
دھوکے میں اعتبار کے، تم کیوں چلے گئے؟
جانے ہمیشہ کے لیے دامن میں ڈال کر
کچھ پھول انتظار کے، تم کیوں چلے گئے
زین شکیل
2:Sad Ghazal
دعا کرو گے تو حرفِ دعا نہیں ملنا
محبتوں کا اگر سلسلہ نہیں ملنا
تمھیں دِکھانے ہیں کچھ زخم جو نہیں بھرنے
یقیں کرو کہ ہمیں بے وجہ نہیں ملنا
یہ اب جو تم بڑے بے خوف ہو کے پھرتے ہو
جو ہم نہ ہوں گے، تمھیں حوصلہ نہیں ملنا
میں چل رہا ہوں تمھارے بغیر بھی دیکھو!
مجھے لگا تھا کہ اب راستہ نہیں ملنا
میں بانجھ پیڑ ہوں، مجھ پر ثمر نہیں آتے
بہت کہا تھا تجھے بھی صلہ نہیں ملنا
جہاں بچھڑتے ہوئے نم ہوئیں تری آنکھیں
کبھی دوبارہ تجھے اُس جگہ نہیں ملنا
مرے نصیب میں یہ بھی لکھا ہے آخر پر
"تجھے نصیب کا کچھ بھی لکھا نہیں ملنا"
بہت کٹھن ہے، مگر میں نے سوچ رکھا ہے
کسی بھی طور تجھے بے گلہ نہیں ملنا
وہ کس یقین سے کہتا تھا، زین! میرے بعد
تجھے بھی مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ملنا
زین شکیل
3:Sad Ghazal
پھر روگوں میں چھوڑ گئے ہو
کن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
ہنستے ہنستے جانے والے!
کیوں سوگوں میں چھوڑ گئے ہو؟
ہم کو دردوں اور دکھوں کے
سنجوگوں میں چھوڑ گئے ہو
دیکھو مجھ کو روند رہے ہیں
جن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
زین شکیل
4:Sad Ghazal
اُس نے کہا تھا ایک شب ’’تم نے مجھے بدل دیا‘‘
کیسے کہوں میں اُس سے اب تم نے مجھے بدل دیا
جادو اثر ہر اک ادا، چہرہ ہے یا کہ معجزہ
دکھلا کے اک حسین چھب تم نے مجھے بدل دیا
دیکھو مری شرارتیں، شوخی بھری عبارتیں
چنچل تھا اِس قدر میں کب تم نے مجھے بدل دیا
سرگوشیوں کا میں ہدف، حیرانیاں ہیں ہر طرف
ششدر ہے آئینہ عجب تم نے مجھے بدل دیا
دل میں ہے یوں اُمنگ کیوں، نکھرا ہوا ہے رنگ کیوں
اب پوچھتے ہو کیا سبب تم نے مجھے بدل دیا
اِک حرفِ انتظار ہوں، ہر آن بے قرار ہوں
راغبؔ نہیں رہا میں اب تم نے مجھے بدل دیا
افتخار راغبؔ
5:Sad Ghazal
کہا میں نے مری آنکھوں میں پانی ہے
جواب آیا محبت کی نشانی ہے
کہا میں نے لگی دل کی بجھانی ہے
جواب آیا یہ آتش جاودانی ہے
کہا میں نے کھِلیں گے کب وفا کے پھول
جواب آیا ابھی موسم خزانی ہے
کہا میں نے کہ ہر لمحہ سسکتا ہوں
جواب آیا کہ الفت تو نبھانی ہے
کہا میں نے ستم اتنا نہیں اچھّا
جواب آیا محبت آزمانی ہے
کہا میں نے متاعِ زیست یعنی توٗ
جواب آیا یہاں ہر چیز فانی ہے
کہا میں نے کہ اِتنے کیوں گریزاں ہو
جواب آیا تمھاری مہربانی ہے
کہا میں نے کہ دیکھ اِن سرخ آنکھوں میں
جواب آیا محبت آسمانی ہے
کہا میں نے خموشی مار ڈالے گی
جواب اُن کا مکمل بے زبانی ہے
کہا میں نے مری غزلوں کی جاں ہو تم
جواب آیا تمھاری خوش گمانی ہے
کہا میں نے محبت محورِ ہستی
جواب آیا بلائے ناگہانی ہے
کہا میں نے سناؤ حالِ دل راغبؔ
جواب آیا بہت لمبی کہانی ہے
افتخار راغبؔ
6:Sad Ghazal
کسی پہ دل کو نثار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں کیا کہوں کس سے پیار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں غیر تھا تو بہت زیادہ سکون سے تھا
کسی کو اپنا شمار کر کے تڑپ رہا ہوں
وہ جانتا ہے مگر نہ آئے گا مجھ سے ملنے
میں اس کا ہی انتظار کر کے تڑپ رہا ہوں
کسی کو کیا دوش دوں کہ خود ہی عدو ہوں اپنا
خوشی کا اپنی شکار کر کے تڑپ رہا ہوں
نہ جانے کیوں کر لیا ہے لازم وفا کو خود پر
کسی سے قول و قرار کر کے تڑپ رہا ہوں
کسی سے کس منھ سے کوئی شکوہ کروں میں آخر
میں خود ہی دل کو فگار کر کے تڑپ رہا ہوں
مِرے مقابل کہاں ہے کوئی جو مجھ سے لڑتا
میں اپنے اوپر ہی وار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں ڈر رہا ہوں جنوں کی حد سے گزر نہ جاؤں
لباسِ عشق اختیار کر کے تڑپ رہا ہوں
علیم ہے توٗ، کریم ہے توٗ، رحیم ہے توٗ
گناہ اپنے شمار کر کے تڑپ رہا ہوں
تڑپ رہا ہوں کسی کا ہوکر میں دل سے راغبؔ
کسی کو صد افتخار کر کے تڑپ رہا ہوں
افتخار راغبؔ
7:Sad Ghazal
محبت کچھ نہیں ہوتی
مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
جدائی کے سبھی خدشے،
وصل کے خواب بھی سارے،
فقط افسانوی قصّے
کوئی صورت نگاہوںمیں کہاں دن رات رہتی ہے
اسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسو بے زباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یادسے طوفان اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی!
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے
کہ اُس کی جھیل آنکھوںمیں وصل کے خواب رہتے ہیں
وہا ںپر ہجر کا ڈر ہے، وہاں برسات رہتی ہے
یوں لگتا ہے کئی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یوں لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں
اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی
کہ اب شاید محبت کی وہ سب رمزیں سمجھتی ہے
عاطف سعید
8:Sad Ghazal
جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے
کچھ آنکھیں پاگل ہوتی ہیں کچھ دل دیوانہ ہوتا ہے
کیوں آنکھیں چوکھٹ پر رکھ کر تم دنیا بھول کے بیٹھے ہو
کب چھوڑ کے جانے والے کو پھر واپس آنا ہوتا ہے
جب پیار کسی سے کرتے ہو کیوں واعظ سے گھبراتے ہو
یہ بات ہی ایسی ہوتی ہے سب نے سمجھانا ہوتا ہے
یہ آنسو‘ شکوے‘ آہیں سب بے معنی سی زنجیریں ہیں
کب اِن کے باندھے رکتا ہے وہ جس کو جانا ہوتا ہے
میں تجھ کو کیسے بھولوں گا؟ تو مجھ کو کیسے بھولے گی؟
اک داغ سا باقی رہتا ہے جب زخم پرانا ہوتا ہے
کچھ لوگ تمہاری محفل میں چپ چاپ اکیلے بیٹھے ہیں
اُن کے چہرے پہ لکھا ہے جو پیار نبھانا ہوتا ہے
ہم اہلِ محبت کیا جانیں دنیا کی سیاست کو عاطفؔ
کب ہاتھ ملانا ہوتا ہے کب ہاتھ چھڑانا ہوتا ہے
عاطف سعید
9:Sad Ghazal
’’مجھے تم کیا بتاؤ گی‘‘
مجھے تم کیا بتاؤ گی؟
کہ جب سے مجھ سے بچھڑی ہو
بہت بے چین رہتی ہو
مری باتیں ستاتی ہیں
مری نظمیں رُلاتی ہیں
مری آنکھیں جگاتی ہیں
مرے لفظوں کے جگنو!
ایک پل اوجھل نہیں ہوتے
مجھے تم کیا بتاؤ گی
کہ تم نے بارہا اُن اجنبی چہروں کے جنگل میں
مرے چہرے کو ڈھونڈا ہے
کسی مانوس لہجے پر
کسی مانوس آہٹ پر
پلٹ کر ایسے دیکھا ہے
کہ جیسے تم مری موجودگی محسوس کرتی ہو!
مجھے تم کیا بتاؤ گی!
کہ کتنی شبنمی شامیں
ٹہلتے‘ سوچتے گذریں
کہ کتنی چاندنی راتیں
دعائیں مانگتے گذریں
کہ کتنے اشک ایسے تھے
جو گرتے ہی رہے دل میں
مجھے تم کیا بتاؤ گی!
مری جاں! میں سمجھتا ہوں
تمہاری اَن کہی باتیں
کہ میں اِن موسموں کے ایک اک رستے سے گذرا ہوں
میں اب بھی لفظ چنتا ہوں
میں اب بھی اشک بُنتا ہوں
کہ جب سے تم سے بچھڑا ہوں
تمہاری ذات پر گذرے
میں ہر موسم میں رہتا ہوں
تو پھر تم کیا سناؤ گی
مجھے تم کیا بتاؤ گی
عاطف سعید
10:Sad Ghazal
تیرے میرے بیچ زمانہ پڑتا ہے
دل کو کتنی بار بتانا پڑتا ہے
ٹھہر گئی ہے بات مقدر پر آ کر
خود کو یہ اکثر سمجھانا پڑتا ہے
سوچوں کو کب قید کوئی کر پایا ہے
لیکن خود کو تو سمجھانا پڑتا ہے
رستہ ہو دشوار یا راہی انجانے
اِس جیون کا ساتھ نبھانا پڑتا ہے
خاموشی کے ڈسنے کا ڈر ہو جس دم
ایسے میں خود شور مچانا پڑتا ہے
پاس مرے تو صرف تمہاری یادیں ہیں
یادوں سے دل کو بہلانا پڑتا ہے
عاطف سعید
11:Sad Ghazal
گھائل ہے تیری شہزادی شہزادے
تو نے جو ہر بات بھُلا دی شہزادے
ہر جانب ہو ایک منادی شہزادے
تیری ہو گئی یہ شہزادی شہزادے
ہنستے ہنستے روتی ہوں پھر ہنستی ہوں
عشق نے کیسی مجھ کو سزا دی شہزادے
آج بھی عرش کو دیکھا تیرا نام لیا
آج بھی میں نے تجھ کو دعا دی شہزادے
شام ڈھلے تو درد بھی اپنی آمد کی
کر دیتا ہے روز منادی شہزادے
ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں
لوگوں نے تو بات بڑھا دی شہزادے
تجھ کو چاہا تو پھر ٹوٹ کے چاہا ہے
شعلوں کو بھی خوب ہَوا دی شہزادے
قبر پہ روتے رہنے سے سُکھ پاؤ گے
تم نے کتنی دیر لگا دی شہزادے
بولو آخر دل پر کیا کچھ بیتے گی
تم نے جو ہر یاد مٹا دی شہزادے
جتنی عمر ہے باقی وہ بھی تیرے نام
جتنی تھی وہ تجھ پہ لٹا دی شہزادے
آج ربابؔ کے لب پر چیخی خاموشی
خاموشی نے تجھ کو صدا دی شہزادے
فوزیہ ربابؔ
12:Sad Ghazal
زلفِ محبت برہم برہم می رقصم
وجد میں ہے پھر چشمِ پرنم می رقصم
عشق کی دھُن میں آنکھیں نغمہ گاتی ہیں
گھول مرے جذبوں میں سرگم می رقصم
سائیاں زخم تری ہی جانب تکتے ہیں
آج لگا نینوں سے مرہم می رقصم
میری مستی میں سرشاری تیری ہے
میرے اندر تیرے موسم می رقصم
وحدّت کا اک جام پلا دے آنکھوں سے
ایک نظارا دیکھوں پیہم می رقصم
آ سانول آ ایسے آن سما مجھ میں
رقصاں ہوں دو روحیں باہم می رقصم
پھیل گئی ہر گام ربابؔ محبت یوں
می رقصم می رقصم رقصم می رقصم
فوزیہ ربابؔ
13:Sad Ghazal
سونا چاہت ہیرا من شہزادے کا
عشق سراپا پیراہن شہزادے کا
اِن کو آنسو مت کہنا اچھّے لوگو
آنکھ میں اُترا ہے ساون شہزادے کا
اِس سے بڑھ کر کیا دولت کی چاہ کروں
میرے پاس ہے سندر من شہزادے کا
ایک دعا ہی لب پر اٹکی رہتی ہے
کبھی نہ چھوٹے اب دامن شہزادے کا
میں بھی ہوں انمول نگاہوں میں اس کی
اور بھلا کیا ہوگا دھن شہزادے کا
آس لگائے نین بچھائے ہر لمحہ
رستہ دیکھے یہ بِرہن شہزادے کا
کروں دعائیں دیپ بہا کر پانی میں
میرے سنگ کٹے جیون شہزادے کا
جب بولے تو صحرا میں بھی پھول کھلیں
شیریں لب سیراب سخن شہزادے کا
ہر پل ہر دم رستہ دیکھا کرتی ہوں،
میں پگلی دیوانی بن، شہزادے کا
کیسے روٹھتا اور جھگڑتا رہتا ہے
دیکھے کوئی پاگل پن شہزادے کا
شہزادی کی سانسوں میں وہ بستا ہے
اس کی روح ہے اور بدن شہزادے کا
مجھ میں ربابؔ ہے یوں چاہت شہزادے کی
روح سے باندھ لیا بندھن شہزادے کا
فوزیہ ربابؔ
No comments:
Post a Comment